شاعرِ مزدور سے وابستہ کچھ یادیں

حسین ثاقب

جب دروازے پر پہنچا تو احساس ہوا کہ “دانش کدہ” کی تلاش کوئی اتنا مشکل کام نہیں تھا۔ انارکلی بازار میں لوہاری دروازے کی طرف جاتے ہوئے ایبک روڈ سے ذرا سا آگے جا کر دائیں ہاتھ کی عمارت پر تختی لگی دیکھی تو دروازے پر دستک دی۔ جواب میں دروازہ نہ کھلا۔ تھوڑی دیر بعد پھر دستک دی اور پھر بھی دروازہ نہ کھلا تو ایک نستعلیق قسم کے بزرگ جاتے جاتے رکے اور فرمانے لگے “میاں، دستکیں دیتے رہے تو یہیں کھڑے رہو گے۔  دروازہ کھولو اور زینہ چڑھ جاؤ۔ اوپر ہی حضرت احسان دانش کی نشست گاہ ہے.”  میں پھر بھی گھبرا رہا تھا کہ پردے کا مسئلہ نہ ہو۔ انہوں نے مجھے ہچکچاتے ہوئے دیکھا تو شفقت سے کہنے لگے کہ گھبراؤ مت، زنانہ دوسری طرف ہے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب اردو بولنے والے بزرگ ابھی موجود تھے۔ ان میں وہ وضعداری اور رکھ رکھاؤ بھی باقی تھا جو اردو تہذیب کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔ یہ لوگ اپنی زبان اور تہذیب کی سختی سے حفاظت کرتے، اپنے بچوں کی زبان پر کڑی نظر رکھتے اور مقامی زبان حتیٰ کہ خود اردو کے غیر مانوس الفاظ بولنے پر ان کی سرزنش کرتے تھے۔ ان میں کچھ بزرگ ایسے بھی تھے جو ہم جیسوں کے اردو لب و لہجے کا مضحکہ اڑاتے اور شعر و ادب پر اپنی ہی اجارہ داری  کا دعویٰ کرتے تھے۔ با ایں ہمہ اردو سیکھنے، بولنے اور لکھنے کا شوق برقرار تھا اور اردو لکھنے والوں سے عقیدت بھی اپنی جگہ قائم تھی۔ یہ وہی عقیدت اور زبان سے محبت تھی جو اس روز مجھے “شاعرِ مزدور” کے درِ دولت پر کھینچ کر لائی تھی۔

یہ 1970 کے آخری دنوں کی بات ہے۔ عید کی چھٹیاں چل رہی تھیں اور میں عیدی کی آمدنی خرچ کرنے نکلا تھا۔ یار دوست چڑیا گھر اور بادشاہی مسجد جارہے تھے لیکن میں پہلے اولڈ کیمپس کے سامنے واقع لاہور کے عجائب گھر میں گیا جہاں صادقین کی خطاطی کے فن پاروں کی نمائش جاری تھی۔ انہوں نے غالب کے اشعار کو خطاطی میں ڈھال کر ان کی کمال شرح کی تھی۔ صادقین خود بھی نمائش میں موجود تھے اور حسبِ توقع خواتین میں گھرے ہوئے تھے۔ وہ ایک مستطیل کارڈ پر بنے منی ایچر فن پارے پر اپنے دستخط ثبت کرتے اور مداح خواتین میں سے کسی ایک کو تھما دیتے۔ میں نے بھی کوشش کی کہ ایک کارڈ پر ان کے آٹو گراف حاصل کروں لیکن معلوم ہوا کہ مجھے وہ کارڈ قیمتاً خریدنا پڑے گا۔ عیدی کا کیش گنا تو ناکافی ثابت ہوا۔ میرے پسندیدہ کارڈ پر انہوں نے غالب کے اس شعر کی خطاطی کی اور زلفیں اس طرح تصویر کی تھیں کہ سارا شعر سمجھ میں آ گیا:

بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پُرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

ان دنوں میں کالج کے پہلے سال میں تھا۔ شعر تو میٹرک سے کہنا شروع کر دیا تھا۔ اس میں میرے میٹرک کے اردو کے استاد جناب ہاشمی صاحب کی حوصلہ افزائی اور ابتدائی تربیت کا بڑا دخل تھا۔ وہ خود بھی شاعر تھے۔ چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد، خشخشی داڑھی اور منہ میں ہمہ وقت پان۔ وہ اردو ضرب المثل، روزمرہ اور محاوروں کی ایسی تشریح کرتے کہ کسی دوسرے استاد نے نہیں کی ہوگی۔ بعض اوقات کسی محاورے کی تشریح کرتے ہوئے کہتے, “اماں یار! جا کے مبین کی دادی سے پوچھ لو۔ وہ ایسے سینکڑوں محاورے بتا دیں گی۔ وہ تو بات بھی محاوروں اور ضرب الامثال میں کرتی ہیں۔” اب خدا معلوم یہ مبین کون تھا اور اس کی دادی کے پاس محاوروں کا کتنا بڑا خزانہ تھا کہ ہاشمی صاحب جیسے استاد بھی اس کا حوالہ دینے پر مجبور تھے۔ مجھے یاد ہے کہ بچے سرگوشیوں میں ایک دوسرے کو بتاتے تھے کہ یہی ہاشمی صاحب فلموں کے لئے فیاض ہاشمی کے نام سے گیت لکھتے ہیں۔ ظاہر ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ یہ معصوم ذہنوں کی اختراع تھی۔

میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ ہاشمی صاحب کی نظر کرم کا مستحق ٹھہرا۔ وہ رضاکارانہ طور پر صَرف و نحو، تحلیلِ صرفی، ترکیب نحوی وغیرہ سمجھاتے جو مجھ سمیت سب کے اوپر سے گذر جاتا۔ پھر انہوں نے اشعار کی تقطیع بتانا شروع کی تو مجھے بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ مجھے یاد ہے انہوں بحر ہجز مثمن سالم کا نام لیا اور محمد رفیع کے مقبول گانے “بہارو پھول برساؤ۔۔۔” کی تقطیع کروائی جس کے ارکان مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مجھے فوراً ہی ازبر ہو گئے تھے۔ بعد میں جب میں نے باقاعدہ طور پر جناب حمید کوثر کی خدمت میں اپنا زانوئے تلمذ تہہ کیا تو مجھے شعرگوئی کی مبادیات کی سمجھ آ چکی تھی۔ میری پہلی غزل کی اصلاح بھی ہاشمی صاحب کے دستِ مبارک سے ہوئی تھی۔

ہاشمی صاحب کا نام محبوب الحسن ہاشمی تھا اور وہ حبیب جونپوری تخلص کرتے تھے۔ بعد میں اسی نام سے ان کے کلیات بھی منظرِ عام پر آئے۔ وہ سکول میں ماہانہ مشاعرے کا اہتمام بھی کیا کرتے تھے۔ ان کے اپنے صاحب زادے منقاد حیدر اختر ہاشمی سکول میں ہم سے ایک سال آگے تھے۔ میں کہیں پڑھ رہا تھا کہ وہ اپنے والد کی شاعری پر کتاب لکھ رہے ہیں۔

یہ ساری تفصیل بتانے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ جس وقت میں دانش کدہ کے دروازے پر پہنچا اس وقت مجھے تخلیق شعر کی تھوڑی بہت شُدبد حاصل ہو چکی تھی۔ نہ صرف باوزن شعر کہتا بلکہ کالج میگزین کے لئے مضامین بھی لکھتا تھا۔ ایسے میں آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ “چٹان” میں میری ایک غزل شائع ہوئی تو میں نے خود کو توپ چیز سمجھنا شروع کر دیا۔ جوانی کا آغاز تھا۔ راتیں تخیلات کی روشنی سے منًور رہتی تھیں۔ ہر وقت ایک رومانوی سا نشہ سرور طاری کئے رکھتا۔

سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والی منزل کے بڑے کمرے میں داخل ہوا جہاں ہر طرف کتابیں بکھری پڑی تھیں۔ اس بڑے کمرے کی بغل میں ایک “ذیلی کمرہ ” تھا جس میں احسان دانش صاحب کی فرشی نشست گاہ تھی۔ انہوں نے مجھے بھی فرش پر بیٹھنے کی دعوت دی اور رسمی طور پر حال احوال پوچھا۔ میں نے جواب دیتے ہوئے یہ بھی بتا دیا کہ ابھی عجائب گھر سے ہو کر آ رہا ہوں جہاں صادقین کے فن پاروں کی نمائش لگی ہوئی پے۔

“اماں چھوڑو اس کے فن پاروں کو۔ وہ تو خوفناک تصویریں بناتا ہے۔” میں نے بتایا کہ میں صادقین کی خطاطی دیکھ کر آ رہا ہوں۔ اس نے غالب کے اشعار کی خطاطی کی ہے۔ لیکن انہیں پہلے سے معلوم تھا کہ خطاطی کے ساتھ جو کیری کیچر قسم کی مصوری کی ہے وہ واقعی ڈراؤنی ہے۔

دانش صاحب نے بازار سے ہاف سیٹ چائے منگوا رکھی تھی کیونکہ ان کے پاس کرتہ پاجامہ اور واسکٹ میں ملبوس ایک دھان پان سے صاحب پہلے سے موجود تھے جو میری طرف خشمگیں نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اس زمانے میں چائے بازار سے منگوانے کا رواج تھا اور ہاف سیٹ سے مراد تھا ایک ٹرے میں دو خالی کپ، ایک چائے دانی جس میں دم کی ہوئی خوشبودار چائے ہوتی تھی، شکر دان اور کھولتے ہوئے دودھ سے لبریز دودھ دان۔ دانش صاحب نے ازراہِ مروٌت و مہمان نوازی چائے لانے والے لڑکے سے ایک خالی کپ منگوا کر مجھے بھی چائے میں شریک کر لیا لیکن ان کے مہمان کے چہرے کی خشونت اور مزاج کی خفگی برقرار رہی۔ آخر وہ رہ نہ سکے اور اپنی خفگی کا اظہار کر ہی دیا۔

“صاحب! آپ نے اس لونڈے کے لب و لہجے پر غور فرمایا۔ یہ اردو کیسے بولتے ہیں۔”

دانش صاحب اپنے ایک بزرگ مہمان کے ہاتھوں ایک نووارد کی یہ درگت بنتے دیکھ کر تھوڑا پریشان ہوئے اور کہنے لگے کہ شفیق بھائی، صاحب زادے کی بات تو سمجھ میں آ ہی رہی ہے۔ پھر مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کے بزرگوں کا تعلق کہاں سے ہے؟ میرا خیال ہے کہ ان کے مہمان توقع کر رہے تھے کہ میں یو پی کے کسی شہر کا نام لوں گا لیکن میں نے بھی منہ کھول کر کہہ دیا کہ میرا تعلق تحصیل گوجرخان کے ایک گاؤں سے ہے۔ شفیق صاحب جن کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ ان کا پورا نام شفیق کوٹی تھا، میرا جواب سن کر سخت بدمزہ ہوئے اور طنزاً فرمانے لگے کہ میاں اپنے نام کے ساتھ گوجرخانی لگایا کرو۔ کیا غیر شاعرانہ نام ہے تمہارے گاؤں کا۔

“گوجرخان!” دانش صاحب کو نام سنتے ہی جیسے کچھ یاد آ گیا۔ “شفیق بھائی! یاد آیا کہ پچھلے ہفتے گوجرخان سے ایک عید کارڈ آیا تھا۔”

“جی مرتضیٰ برلاس کا تھا۔ شاعر ہیں۔”
“کیا وہ بھی گوجرخانی ہیں؟” میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
“جی نہیں۔” کوٹی صاحب نے جل کر جواب دیا۔ “برلاس صاحب آپ کی تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر لگے ہوئے ہیں۔ حاکم ہیں گوجرخان کے۔ حاکم سمجھتے ہیں آپ؟” ان کے لہجے میں جو ڈپٹ تھی اس سے سہم کر میں خاموش ہو گیا۔

شاعر مزدور دردِ دل کی دولت سے مالا مال تھے۔ ان کو احساس تو ہو رہا تھا کہ ان کے ایک ملنے والے کی جلی کٹی باتوں کی وجہ سے میرے دل پر کیا بیت رہی ہوگی، لیکن وہ مروتا” خاموش تھے۔ انہوں نے ایک بار پھر موضوع بدلنے کی کوشش کی اور میری طرف متوجہ ہوئے۔ پوچھنے لگے کہ آج کل کیا لکھ رہے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ شعر موزوں کر لیتا ہوں۔

“کہیں چھپے بھی ہیں؟” کوٹی صاحب نے پھر دخل در معقولات کی۔
مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا پوچھ رہے ہیں۔ میں نے ہونقوں کی طرح ان کی طرف دیکھا۔ پھر احسان دانش صاحب کی طرف دیکھا۔

“کوٹی صاحب پوچھ رہے ہیں آپ کا کلام کہیں شائع بھی ہُوا ہے؟”

“جی جی۔ شورش کاشمیری صاحب نے ہفت روزہ چٹان میں میری ایک غزل شائع کی تھی۔” میں نے پھر لن ترانی شروع کر دی۔ “اس کے علاوہ ایک مضمون شبلی نعمانی پر لکھا تھا جو کالج میگزین میں شائع ہوا تھا۔”

“چٹان اور کالج میگزین کوئی ادبی مجلٌے تو نہیں؟”

“تو کیا اس عمر میں یہ نقوش میں چھپیں گے؟” احسان دانش صاحب نے اپنے مہمان کو جواب دے کر چپ کرا دیا اور مجھ سے پوچھنے لگے۔ “ہماری شاعری بھی نظر سے گذری؟”

انہی دنوں اردو ڈائجسٹ میں ان کی ایک معرکہ آراء غزل پڑھی جس کا مطلع تھا/وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے/وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے۔ وہ غزل مجھے زبانی یاد تھی۔ ساری غزل سن کر احسان دانش صاحب کا سانولا سلونا چہرہ دمک اٹھا۔ میں نے انہیں ان کے وہ انقلابی اشعار بھی سنائے جنہیں ہم لوگ کالج ڈیبیٹ میں جوش و خروش سے پڑھا کرتے تھے۔ وہ دور دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم کا دور تھا۔ بائیں بازو والے ترقی پسند کہلاتے اور دائیں بازو والوں کو رجعت پسند کا خطاب دیتے تھے۔ انقلابی شعراء کا تعلق بالعموم بائیں بازو سے تھا جن کو ہم مذہب اور خدا کے منکر سمجھتے تھے۔ اور دائیں بازو والوں کے پاس لے دے کے صرف احسان دانش تھے جن کے یہ اشعار ہم انقلابیوں کو چڑانے کے لئے پڑھتے تھے۔

آ جاؤ گے حالات کی زد پہ جو کسی دن
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے

میرے افلاس نے کھائی نہیں دولت سے شکست
اور اس ملک کے فنکار سے کیا چاہتے ہو

پھر میں نے وہ نظم بھی سنائی جو حال ہی میں ہفت روزہ “چٹان” میں شائع ہوئی تھی۔ بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے۔

“میاں صاحبزادے! آپ چٹان کے علاؤہ بھی کچھ پڑھتے ہیں یا آپ کے سارے علم و فضل کا منبع صرف یہی ایک ہفت روزہ ہے؟” کوٹی صاحب کہاں باز آنے والے تھے۔

میں نے انہیں کچھ کتب کے نام بتائے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ہفت روزہ “چٹان” کو صرف سیاسی ہفت روزہ نہ سمجھیں، اس میں شورش کاشمیری کی شاعری بھی ہوتی ہے اور دوسرے شعراء کی بھی۔

“آپ شورش کاشمیری کو بڑا شاعر سمجھتے ہیں؟”

“جی، عصری شاعری میں وہ مولانا ظفر علی خان کی طرح ایک بڑے شاعر ہیں۔”

“اور آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے ظفر علی خان زانوئے ادب کہاں تہہ کرتے ہیں؟”

اس پر احسان دانش صاحب نے تائید میں سر ہلایا اور اپنے مہمان پر تحسین کی ایک نظر ڈالی۔ لگتا تھا اس ایک جملے نے انہیں نہال کر دیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس وقت مجھے اس ثقیل جملے کی بالکل سمجھ نہیں آئی۔ تاہم میں نے بُزِاخفش کی طرح سر ہلا دیا اور رخصت کی اجازت چاہی جو بلاتأمل مل بھی گئی۔

میں جوتے پہن کر نشست گاہ سے نکل کر کتب خانے میں آیا اور وہاں سے زینہ اترنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں شورش کاشمیری سر جھکائے سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں۔ وہ اپنے ہی خیالوں میں محو تھے۔ انہیں احساس تک نہ ہُوا کہ میں نے ذرا ہٹ کر انہیں راستہ دیا اور انتہائی مؤدب ہو کر سلام بھی کیا ہے۔ سیڑھیوں سے اتر کر انارکلی بازار کا شور کانوں میں پڑا تو کوٹی صاحب کے کاٹ دار جملوں کا اثر قدرے کم ہوا۔ پھر ان کے اس جملے کی سمجھ آئی کہ شورش کاشمیری حضرت احسان دانش کہ خدمت میں ہی زانوئے ادب تہہ کرتے ہیں۔ میں ایک بار شورش سے مل چکا تھا اور ہفت روزہ “چٹان” کے سٹاف کے ساتھ ان کے درشت رویے نے مجھے ان سے بیزار بھی کردیا تھا، لیکن بایں ہمہ میں انہیں عصر حاضر کا مولانا ظفر علی خان ہی سمجھتا تھا۔ میں نے ان ہی دنوں ایک نظم بھی لکھی تھی جس کے قافیہ ردیف دیوار ہے شورش، تلوار ہے شورش وغیرہ تھے۔ میں نے یہ نظم ان کے سامنے پڑھ کر سنائی بھی تھی۔ یہ سن کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ شورش جیسا شاعر جو قلم سے شمشیر کا کام لیتا ہے، وہ بھی احسان دانش کے ہاں آ کر فیضیاب ہوتا ہے۔

میں شفیق کوٹی صاحب کے اہانت آمیز سلوک سے بدمزہ تو ضرور ہوا لیکن یہ سوچ کر کہ احسان دانش صاحب بھی اس وجہ سے آزردہ ہوئے، اس بدسلوکی کو فراموش کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں بعد میں بھی سلام کے لئے جاتا رہا اور خوش قسمتی سے دوبارہ کبھی شفیق کوٹی صاحب سے سامنا نہیں ہوا۔ بلکہ میں جب بھی گیا، احسان دانش صاحب کو تنہا اپنے کتب خانے میں فرشی ڈیسک پر جُھکے کام کرتے دیکھا۔ انہوں نے مصروفیت کے باوجود شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے وقت دیا اور میرے ہر سوال کا جواب خندہ پیشانی سے دیا۔ میں ان کے کتب خانے سے بہت متاثر تھا اور سوچتا تھا کہ انہوں نے اتنی ساری کتابیں کیسے جمع کی ہوں گی۔ مجھے حیران دیکھ کر کہنے لگے کہ کچھ سال بعد اگر اردو یا السنہ شرقیہ میں پی ایچ ڈی کرنا ہو تو کہیں مت جانا، سیدھے اس کتب خانے میں آ جانا، یہاں تحقیق و تدقیق کے لئے ہر کتاب میسر ہو گی۔ یہ الگ بات کہ میری لائن ہی بدل گئی اور اردو کی تعلیم میرے تعلیمی منصوبے کا حصہ نہ بن سکی۔ وہ فخر سے بتاتے تھے کہ ان کے بیٹے نے تحقیق کے لئے اسی لائبریری سے استفادہ کیا تھا۔

پہلی ملاقات سے غالباً چار سال بعد کی بات ہے۔ میں گورنمنٹ کالج میں تھا اور کارکن صحافی بھی بن چکا تھا اس لئے قدرتی طور پر تھوڑی خود اعتمادی بھی آ چکی تھی۔ ایک بار زینہ چڑھ کر اوپر پہنچا تو دیکھا کہ احسان دانش صاحب کتب خانے میں تشریف رکھتے ہیں اور کچھ کارڈ ہاتھ میں لئے گہری سوچ میں گم ہیں، ویسے ہی کارڈ جیسے اس زمانے کے لائبریری کیٹلاگ میں ہوتے تھے۔ مجھے فوراً احساس ہوا کہ میں غلط وقت پر دخل در معقولات کر رہا ہوں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے سلام کیا اور دریافت کیا کہ میں مخل تو نہیں ہورہا۔ انہوں نے ایک لمحے کے لئے کارڈ پر سے نظریں اٹھائیں اور میری طرف ایسے دیکھا جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہوں۔ پھر جونہی آنکھوں میں شناسائی کی چمک پیدا ہوئی تو چہرے پر ایک خفیف سی مسکراہٹ بھی پیدا ہوئی۔

“آؤ آؤ میاں۔ صحیح وقت پر آئے ہو۔” ابھی ان کے اس سرپرائز اٹیک کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ انہوں نے دوسرا لفظی گولہ داغا۔ “میں کچھ دیر پہلے تمہارے ہی بارے میں سوچ رہا تھا۔”

“میرے بارے میں؟ یا للعجائب! یہ میرے بارے میں کیا اور کیوں سوچ رہے تھے؟” میں نے حیران ہو کر دل میں سوچا اور مؤدب ہو کر پوچھا کہ جناب! میں آپ کے کس کام آسکتا ہوں۔

“پہلے یہ بتاؤ کہ وَل کے کیا معنی ہیں اور یہ ول ہے یا ولے ہے؟”

“میں کچھ سمجھا نہیں جناب!” میں نے گڑبڑا کر کہا۔ “آپ پنجابی الفاظ کے معنی پوچھ رہے ہیں؟”

“تم نے پہلے روز بتایا تھا ناں کہ تم گوجرخانی ہو۔ تمہارے علاقے کے ایک مشہور صوفی شاعر نے کہا تھا، جے ویکھاں میں آپنے ولے کجھ نئیں میرے پلے.”

“جی جی، یہ میاں محمد بخش نے کہا تھا اور اس میں ول کا مطلب ہے جانب۔”

انہوں نے وہ کیٹلاگ والا کارڈ میرے سامنے کر دیا۔ اس پر لفظ “سمت” کے مختلف معانی لکھے تھے جن میں ایک ول بھی تھا۔ معلوم ہوا کہ حضرت احسان دانش اردو کی لغت مرتب کر رہے ہیں۔ ایک کارڈ پر ایک لفظ اور اس کے مختلف معانی درج تھے جن میں ول بھی تھا۔

“آپ نے بالکل درست تو لکھا ہے جناب!”

“جی مجھے معلوم ہے لیکن آپ سے تصدیق کرنا تھی۔” انہوں نے ایسی مسکراہٹ سے کہا جس میں شرارت کی بھی آمیزش تھی۔

میں تھوڑا سا گڑبڑایا تو کہنے لگے کہ ہر کسی سے ایسی تصدیق کر نہیں سکتا ورنہ لوگ اپنے آپ کو احسان دانش کا استاد مشہور کر دیتے ہیں۔

“اب آپ سے ایسا کوئی خطرہ تو ہے نہیں کیونکہ آپ اول تو ایسا کریں گے نہیں اور کریں گے بھی تو کوئی یقین نہیں کرے گا۔”

یہ کہہ کر انہوں نے خلافِ عادت ایک قہقہہ لگایا اور کارڈ کو ایک طرف رکھ کر کہنے لگے کہ آج صرف تمہارے لئے چائے منگواتا ہوں۔ لیکن چائے والے کو کہنے کے لئے تمہیں خود تکلیف کرنا پڑے گی۔